ماؤں اور بچوں کی قابلِ انسداد اموات کے خاتمے کے لیے کال ٹو ایکشن سمٹ 2015ء میں اعلانِ دہلی

نئی دہلی، 28 اگست 2015ء/ پی آرنیوزوائر– دو روزہ عالمی ‘کال ٹو ایکشن سمٹ 2015ء’ آج ‘قابل انسداد زچہ و بچہ اموات کے خاتمے’ کے لیے 22 ممالک کے وزرائے صحت اور قومی وفود کے سربراہان کے تسلیم کردہ اعلانِ دہلی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچی۔ اعلان اجلاس کے دوران گزشتہ روز ہونے والے اعلیٰ وزارتی اجتماع کے نتیجے کے طور پر تشکیل پایا۔

Call%20to%20Action ماؤں اور بچوں کی قابلِ انسداد اموات کے خاتمے کے لیے کال ٹو ایکشن سمٹ 2015ء میں اعلانِ دہلی

Call to Action Summit 2015

(لوگو:http://photos.prnewswire.com/prnh/20150828/762204)

کال ٹو ایکشن سمٹ 2015ء 27 سے 28 اگست 2015ء تک نئی دہلی میں منعقد ہوئی جس کی مشترکہ میزبانی وزارت صحت و خاندانی بہبود، حکومت بھارت اور وزارت صحت ایتھوپیا نے بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن، ٹاٹا ٹرسٹس، یونی سیف، یو ایس ایڈ اور ڈبلیو ایچ او کے تعاون سے کی۔

عزت مآب وفاقی وزیر برائے صحت و خاندانی بہبود شری جے پی نڈا نے اجلاس کے اختتامی سیشن سے سربراہ کی حیثیت سے اپنے خطاب میں تمام شریک ممالک کے رہنماؤں سے “شواہد کی بنیاد پر فیصلہ سازی کی روایت سے جڑنے، صحت کے قومی نظاموں میں احتساب کو مضبوط کرنے اور سب سے زیادہ جس کی ضرورت ہے اس کے لیے وسائل کو ترتیب دینے کی اہمیت” پر زور دیا۔ خطاب کے دوران انہوں نے یہ یقین بھی دلایا کہ “بھارت عالمی شراکت داروں کے ساتھ قریبی تعاون کے ذریعے زچہ و بچہ کی صحت میں عالمی پیشرفت کا مظاہرہ کرنے کے لیے کوششوں کی قیادت کرے گا اور تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ بعد از 2015ء ترقیاتی ایجنڈا زچہ و بچہ کی قابل انسداد اموات کے اسباب کے خاتمے میں آگے بڑھا جائے۔”

شریک میزبان انجمنوں اور شراکت داروں کے سربراہان جن میں جناب رچرڈ ورما، امریکی سفیر برائے بھارت؛ محترمہ گیتا راؤ گپتا، ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، یونی سیف؛ جناب گریندرے بی ہیری، بھارت کے لیے کنٹری ڈائریکٹر، بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن؛ جناب آر کے کرشن کمار، ٹرسٹی، ٹاٹا ٹرسٹس اور ڈاکٹر پونم کیتھرپال سنگھ، ریجنل ڈائریکٹر، ڈبلیو ایچ او (سیرو) نے اعلانِ دہلی کو تسلیم کرنے کے دوران وزارتی وفود میں شمولیت اختیار کی اور زچہ و بچہ کی قابل انسداد اموات کے خاتمے کے لیے عہد اور مدد سے وابستگی ظاہر کی۔

اجلاس 24 اقوام کے وزرائے صحت، بھارت کی ریاستوں کے وزرائے صحت، تعلیمی ماہرین، شعبہ صحت سے وابستہ پیشہ ور طبیب اور کارپوریٹ، سول سوسائٹی اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ مختلف شعبوں کے عالمی رہنما کے لیے پلیٹ فارم تھا تاکہ نظام، شراکت داریوں، جدت طرازیوں، اجتماع اور زچہ و بچہ کی قابل انسداد اموات کے خاتمے کے لیے شواہد کی اہمیت پر غور کریں۔

ایڈیشنل سیکرٹری اور مشن ڈائریکٹر (نیشنل ہیلتھ مشن) شری سی کے مشرا نے اعلانِ دہلی میں ملکوں کی جانب سے کیے گئے عہد کا خاکہ پیش کیا۔ “عالمی حکمت عملی برائے صحتِ خواتین، بچے و نوعمر’ کے عنوان سے ہونے والے سیشن کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “ماں اور بچے کی صحت کو زیادہ وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے اثرات کو بڑھانے کے لیے احتساب کو یقینی بنانا اہم ہے۔” سیشن میں ماں اور بجے کی صحت کے اہداف پر 2015ء کے بعد پیشرفت کو تیز کرنے کے طریقوں کا جائزہ لیا۔ پینل سے سفارش کی کہ نوعمر افراد کی صحت، بالخصوص لڑکیوں کی، کو ماؤں اور ان کے بچوں کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے مرکزی حیثیت دی جانی چاہیے۔

‘بلندی کی جانب سفر’ نامی سیشن نے بچوں کو بچانے کے وسائل پر روشنی ڈالی جو کم اور درمیانی آمدنی کے حامل ممالک میں اچھا کام کرتے ہیں۔ بھارت نے امیونائزیشن پروگرام کو آگے بڑھانے کا تجربہ پیش کیا اور دیگر ممالک کے پالیسی سازوں نے حل پیش کیے کہ شہری علاقوں میں سستی بنیادی صحت کی سہولیات کس طرح بڑھائی جا سکتی ہیں۔ ماہرین اور جدت طرازوں کی جانب سے صحت عامہ کی فراہمی کے لیے منظرنامہ تبدیل کرنے والی ٹیکنالوجیز پیش کی گئیں جنہوں نے بچوں اور ماں کی صحت کے لیے جدت کو مضبوط کرنے کے لیے درکار ماحول پر تبادلہ خیال کیا: موبائل فون کا استعمال، ہنگامی نقل و حمل، صحت کی تعلیم اور رجوع کرنے کے نظام ان میں سے چند ہیں۔

عزت مآب ڈاکٹر امیناتا کیتا، خاتون عوامی جمہوریہ مالی نے “زندہ رہنا،فروغ پانا اور تبدیل ہونا’ کے عنوان سے ایک سیشن کی قیادت کی، جہاں غذائی کمی، اسہال اور نومولودوں کی اموات سے بچاؤ کے لیے تسلسل کی اہمیت پر گفتگو کی گئی۔ سیشن نے صحت، صاف پانی، نکاسی، خواتین کو بااختیار بنانے اور دیہی ترقی کے باہم تعلقات کا بھی احاطہ کیا۔ صحت میں سرمایہ کاری کے حوالے سے سیشن میں صحت کی خدمات کی فراہمی کے مالیاتی نمونے، فنڈ انتظام اور استعمال، سرکاری شعبے کی جانب سے صحت عامہ کی خدمات خریدنے یا نجی شعبے کو آؤٹ سورس کرنے اور فنڈ کے انتظام میں احتساب اور نظم و ضبط کو یقینی بنانے پر گفتگو ہوئی۔

کسی بھی ملک میں قابلِ انسداد ماں اور بچے کی اموات کے خاتمے کے لیے تحریک کو برقرار رکھنے کی خاطر حکومتیں کوششیں کافی نہیں ہیں۔ کاروباری شراکت داریوں پر سیشن ترقیاتی شراکت داروں اور کاروباری شعبے کو ایک جگہ پر لایا تاکہ اس حصہ داری پر بات ہوسکے جو اس ایجنڈے کی مدد کے لیے ادویات ساز اور حیاتی ٹیکنالوجی کے اداروں اور انسان دوست شخصیات اور اداروں کے درمیان ہوسکتی ہے۔ احتساب برائے نتائج پر حتمی سیشن میں صحت و خاندانی بہبود کے سیکرٹری شری بھانو پرتاپ شرما نے کہا کہ “شواہد کی بنیاد پر فیصلہ سازی اور برادری کی سطح پر احتساب عملی و بااثر سرکاری صحت عامہ فراہمی کے نظام کے بنیادی پتھر ہیں۔” انہوں نے قومی ہیلتھ مشن میں احتساب کے موجودہ ڈھانچے پر بھی روشنی ڈالی۔

عزت مآب وزیراعظم بھارت شری نریندر مودی نے گزشتہ روز اجلاس کا افتتاح کی اور زچہ و بچہ کے تشنج کے خاتمے کے ذریعے بچوں اور ماؤں کے لیے بھارت کے ایک اور حاصل کردہ سنگ میل کا اعلان کیا۔ اپنے افتتاحی خطاب میں عزت مآب وزیراعظم نے کہا کہ “میرا پختہ یقین ہے کہ یہ اجلاس ان عام چیلنجز سے نمٹنے میں انتہائی موثر پلیٹ فارم فراہم کرے گا جو زچہ اور بچہ کی صحت کے حوالے سے ضروری اہداف کو حاصل کرنے میں ملکوں کو مدد دے گا۔ ” وزیراعظم نے کافی ٹیبل بک ‘بورن ٹو بی’ بھی جاری کی جو ماں اور بچے کی صحت میں بھارت کی ترقی کے 25 سال کے کلیدی سنگ ہائے میل کو بیان کر رہی ہے۔ انہوں نے یو ایس ایڈ کی رپورٹ ‘پکار پر عمل: ماں اور بچے کی قابلِ انسداد اموات کا خاتمہ’ بھی جاری کی جو 2020ء تک 15 ملین بچوں اور 600,000 عورتوں کو بچانے کے منصوبے کا احاطہ کرتی ہے۔

ڈاکٹر کستربرہن ادماسو، وزیر صحت، ایتھوپیا نے کہا کہ “ہم اس مشترکہ پلیٹ فارم کے ذریعے ہونے والی پیشرفت پر نظر رکھ کر خود کو اعلانِ دہلی میں کے گئے وعدوں کا ذمہ دار سمجھیں گے، اور ماؤں، نومولودوں اور بچوں کی قابلِ انسداد اموات کے خاتمے کے لیے 22 اقوام کے درمیان باہمی تدریس، معلومات کے تبادلے اور تعاون کو جاری رکھیں گے۔”

رابطہ:
Namita.narula@edelman.com
تصویر: http://photos.prnewswire.com/prnh/20150828/762204

ذریعہ: کال ٹو ایکشن سمٹ 2015ء

Latest from Blog