کراچی27دسمبر(پی پی آئی) امریکا میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ نے کہا ہے کہ اگرچہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں تاہم تجارت میں تسلسل برقرار رہا ہے اور امریکا پاکستان کے لیے سب سے بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے۔امریکا ایک بڑی مارکیٹ ہے جس کی طلب کو صرف کسی ایک ملک کے ذریعے پورا نہیں کیا جا سکتا لہٰذا یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں میں سخت محنت کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں تاکہ پاکستانی مصنوعات اور خدمات کو امریکہ میں دوسرے مسابقتی ممالک کے ساتھ متعارف کرایا جا سکے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں کے سی سی آئی کے صدر محمد جاوید بلوانی، سینئر نائب صدر ضیاء العارفین، نائب صدر فیصل خلیل احمد، سابق صدور مجید عزیز اور جنید اسماعیل ماکڈا کے علاوہ کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین نے بھی شرکت کی۔رضوان سعید نے بتایا کہ پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی بحالی کے لیے جنگی بنیادوں پر کام جاری ہے جس کی تصدیق ایک کانگریسی رکن نے کی ہے جو کمیٹی کا حصہ ہیں اور یقین دلایا ہے کہ وہ جی ایس پی پلس کے لیے پاکستان کا کیس آگے بڑھائیں گے۔یہی صحیح وقت ہے کیونکہ جن لوگوں نے پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی مخالفت کی تھی وہ اس سال کے امریکی انتخابات میں منتخب نہیں ہوئے۔انہوں نے موجودہ تجارتی تعلقات کو مزید بہتر بنانے کے لیے کے سی سی آئی سے درخواست کی کہ وہ امریکی کمپنیوں کے بارے میں تحقیق کا اشتراک کرے جن کے ساتھ کراچی کی تاجر برادری پہلے ہی رابطے میں ہے اور ان کے ساتھ ایسی امریکی کمپنیوں کی بھی نشاندہی کی جائے جن کے ساتھ وہ کاروبار کرنے کے خواہاں ہیں۔اس سے پاکستان کے سفارتخانے کو ان کمپنیوں سے رابطہ کرنے میں مدد ملے گی جس کی بدولت موجودہ تجارت کو بڑھا سکیں گے اور تجارت و سرمایہ کاری میں تعاون کے اضافی مواقع بھی تلاش کرنا ممکن ہوگا۔انہوں نے برآمد کنندگان کی جانب سے شرح سود میں اضافے اور توانائی کے نرخوں پر اٹھائے گئے تحفظات کا ذکر کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ تاجر برادری کی درخواست کو اسلام آباد میں اعلیٰ حکام تک پہنچائیں گے کہ شرح سود کو 7 فیصد تک کم کیا جائے اور توانائی کے نرخوں میں نمایاں کمی کی جائے تاکہ پاکستانی مصنوعات اور خدمات امریکا اور دیگر بین الاقوامی مارکیٹوں میں مسابقتی رہ سکیں۔انہوں نے پاکستان کی جغرافیائی اسٹریٹجک اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جسے امریکا نظر انداز نہیں کر سکتا لیکن اسے بھارت، چین یا کسی دوسرے ملک کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی بجائے اپنی منفرد خصوصیات کے حوالے سے دیکھنا ضروری ہے۔پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر جدید ترین مصنوعات فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کا موازنہ دنیا کے کسی بھی ملک سے کیا جا سکتا ہے۔ہم امریکی کپاس کے سب سے بڑے درآمد کنندہ بھی ہیں۔یہ بہترین مصنوعات مارکیٹ کے وسیع حجم کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی مارکیٹ میں آسانی سے رسائی حاصل ہو سکتی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکا میں پاکستان کے سفیر کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد ان کی اولین ترجیحات میں کے سی سی آئی کے ساتھ ملاقات کرنا تھی کیونکہ یہ چیمبر اُس شہر کی نمائندگی کرتا ہے جو پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اگرچہ پاکستان کی تجارت کو مختلف ذرائع سے سہولت فراہم کی جا سکتی ہے تاہم کراچی وہ شہر ہے جہاں سے ملک کی اکثریتی بین الاقوامی تجارت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کا فیصلہ کیا۔پاکستانی سفیر نے ملاقات کے دوران دیئے گئے قیمتی مشوروں کو سراہتے ہوئے پاکستان، امریکا دوطرفہ تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے اس طرح کے تبادلہ خیال کو باقاعدگی سے جاری رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔صدرکے سی سی آئی جاوید بلوانی نے امریکا کے ساتھ پاکستان کے اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیا اور اور اس عمل میں پاکستان کے نئے سفیر کے کردار کو اجاگر کیا کیونکہ پاکستانی سفیرکا تجربہ اور سفارتی مہارت دو طرفہ تعلقات کو بڑھانے اور پاکستان کی برآمدات کو فروغ دینے میں اہم ثابت ہو گی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے معاشی منظرنامے میں بتدریج بہتری آرہی ہے اور یہ برآمدات کو بڑھانے پر توجہ دینے کا بہترین وقت ہے۔ برآمد کنندگان نے کاروباری حجم میں اضافہ تو کیا ہے لیکن کاروباری لاگت میں اضافے کی وجہ سے منافع بری طرح متاثر ہوا ہے بالخصوص انہوں نے توانائی کے بلند نرخوں اور زائد شرسودکا حوالہ دیا جس نے مارجن کو نچوڑ دیا ہے۔انہوں نے توانائی کے نرخوں کو 9 سینٹ فی یونٹ تک لانے اور 2025 کے آغاز میں شرح سود کو تقریباً 7 فیصد تک کم کرنے کے لیے فوری اصلاحات پر زور دیا تاکہ پاکستانی برآمدات کی مسابقت اور منافع کو بہتر بنایا جا سکے۔صدر کے سی سی آئی نے نشاندہی کی کہ ایک وقت تھا جب پاکستان کی زرعی پیداوار بالخصوص کپاس اور ٹیکسٹائل کی برآمدات نے علاقائی حریفوں جیسے بھارت، بنگلہ دیش اور ویتنام کو پیچھے چھوڑ دیا تھا تاہم انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان متعدد گمراہ کن پالیسیوں بالخصوص ویلیو ایڈیشن پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے پیچھے رہ گیا ہے جبکہ ہمسایہ ممالک نے برآمدات کو بڑھانے میں نمایاں پیش رفت کی۔ پاکستان کا زرعی شعبہ اس کے ہم آہنگ نہیں رہا جس کی بڑی وجہ معاونت، جدت اور سرمایہ کاری کی کمی ہے۔انہوں نے پاکستانی سفیر کی جانب سے امریکا کو برآمدات بڑھانے کے لیے غیر معمولی کوششوں کی توقع کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی و سرمایہ کاری تعلقات کو فروغ دینے کے لیے رضوان شیخ کی مستقبل کی تمام کوششوں کے لیے مکمل حمایت اور تعاون کا اظہار کیا۔