اکراچی)پی پی آئی)پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین الطاف شکور نے کہا ہے کہ حکومت سندھ، کراچی میں سڑکوں کی ناقص تعمیر کی شفاف تحقیقات کرے۔ حالیہ بارشوں میں کراچی کی زیادہ تر سڑکیں انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں جس سے ان کی ناقص تعمیرات کا پردہ فاش ہو گیا ہے۔ کرپٹ اہلکاروں اور ٹھیکیداروں کے خلاف کاروائی کی جائے جنہوں نے ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے کا نقصان پہنچایاہے۔ سڑکوں کی ناقص تعمیر عوام کے پیسے کا ضیاع ہے جو کہ انسانی حقوق کی براہ راست خلاف ورزی ہے اور سپریم کورٹ اس کا ازخود نوٹس لے۔ سول سوسائٹی کراچی میں سڑکوں کی ناقص تعمیر کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں آئینی پٹیشن بھی دائرکرے تاکہ ٹیکس دہندگان کے پیسے کے اس ضیاع کو روکا جا سکے اور سندھ حکومت میں موجود کرپٹ ٹھیکیداروں اور ان کے سرپرستوں کو جیل بھیج دیا جائے۔ اس بات کی بھی تحقیقات کی جائیں کہ سندھ میں بعض مخصوص کنٹریکٹرز اور کنسٹرکشن میٹریل کمپنیوں کو ہمیشہ سرکاری ٹھیکے کیوں دیئے جاتے ہیں؟ اگر سول سوسائٹی اس لوٹ مار کے خلاف آواز اٹھانے میں ناکام رہی تو ہماری آنے والی نسلیں اس کا خمیازہ بھگتیں گی۔الطاف شکور نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ (جو کہ خود ایک سول انجینئر ہیں) سے مطالبہ کیا کہ وہ حالیہ بارشوں کے دوران کراچی میں سڑکوں اور گلیوں کی تباہی کی خود نگرانی کریں اور کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کریں۔ انہوں نے تجویز دی کہ سڑکوں اور گلیوں کی تعمیر کا کام سندھ کی انجینئرنگ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے سول انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کو دیا جائے تاکہ ایک طرف تعمیراتی معیار کو یقینی بنایا جا سکے اور دوسری طرف انجینئرنگ کے طلباء کو عملی تربیت دی جا سکے۔ پاسبان اسٹیئرنگ کمیٹی کی میٹنگ میں پی ڈی پی کے چیئرمین الطاف شکور نے مزید کہا کہ حالیہ بارشوں میں مین یونیورسٹی روڈ اور جہانگیر روڈ کے کچھ حصے بہہ گئے جنہیں چند ماہ قبل دوبارہ تعمیر یا مرمت کیا گیا تھا۔ لاہور میں بھی تیز بارش ہوئی ہے لیکن لاہور کی سڑکیں اور گلیاں کراچی کی طرح متاثر نہیں ہوئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں سیاسی کرپشن کی سطح سندھ کی نسبت بہت کم ہے۔ اگرچہ سرکاری افسروں اور پرائیویٹ ٹھیکیداروں کا عوام کا پیسہ لوٹنے کا گٹھ جوڑ پورے پاکستان میں سرگرم ہے لیکن سندھ اس معاملے میں سب سے آگے ہے۔ اوپر سے نیچے تک کے سرکاری افسران، سرکاری ٹھیکوں بالخصوص سڑکوں اور گلیوں کی تعمیر میں کرپشن میں ملوث ہیں۔ ان کرپٹ ٹھیکیداروں کو ہمیشہ منافع بخش ٹھیکے ملتے ہیں۔ شفاف تحقیقات کی جائیں تو ان ٹھیکیداروں کی سیاسی وابستگی کا پتہ چل سکتا ہے۔ نہ صرف افسران بلکہ متعلقہ محکموں کے وزراء بھی اس کرپشن اور کک بیکس سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ بعض محکموں میں سرکاری ٹھیکوں میں کمیشن کی شرح تقریباً پچاس فیصد ہے۔ اس کمیشن اور کک بیکس کی رقم ادا کرنے کے بعد ٹھیکیداروں کو ٹھیکے کے منصوبوں میں غیر معیاری میٹریل استعمال کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔