کراچی31دسمبر(پی پی آئی) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی ادبی کمیٹی (شعر و سخن) کے زیر اہتمام معروف ادیب اور کالم نگار رانا محبوب اختر کی کتاب “سندھ گْلا ل” کی تقریب پذیرائی جوش ملیح آبادی لائبریری میں منعقد کی گئی۔ صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی۔ تقریب میں مدد علی سندھی نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی جبکہ مقررین میں نور الہدیٰ شاہ،ڈاکٹر فاطمہ حسن اور ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر شامل تھیں۔ نظامت کے فرائض شکیل خان نے انجام دیے۔ پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ رانا محبوب اختر کی کتاب “سندھ گْلا ل” سندھ کی تاریخ، ثقافت، اور ادب کا ایک عظیم شاہکار ہے۔ اس کتاب میں نہ صرف سندھ کے گہرے پانیوں کی سیر کرائی گئی ہے بلکہ سندھ کی روحانیت، فلسفہ، اور شاہ لطیف کی شاعری کی گونج بھی محسوس ہوتی ہے۔ مصنف نے موہن جو دڑو کی تاریخ اور لال شہباز قلندر کے حوالے سے بھی تفصیل سے لکھا ہے۔ اس کتاب میں موجود فکری شعورقاری کو بہت متاثرکرتا ہے۔ مدد علی سندھی نے کہا کہ میری ایک عادت ہے جو کتاب مجھے پسند آتی ہے میں وہ ایک ہی نشست میں ختم کر دیتاہوں۔جب میں نے یہ کتاب پڑھی تو یقین کیجئے میں اس کے سحر سے باہر نہیں نکل سکا۔ہماری تاریخ ساڑھے سات ہزار سال پرانی ہے لیکن ہمیں صرف ساڑھے تین ہزار سال پرانی تاریخ ملتی ہے۔ معروف ادیبہ نور الہدیٰ شاہ نے کہا کہ رانا محبوب اختر کی کتاب “سندھ گْلا ل” نہ صرف ایک ادبی کاوش ہے بلکہ یہ سندھ کے عوام کی روزمرہ زندگی کی گواہی بھی ہے۔ انہوں نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ سندھی شاعری میں سندھ کا ذکر یا تو ماں یا پھر محبوبہ کے طور پر ملے گا۔سندھ کا مزاج مزاحمتی ہے۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ رانا محبوب اختر کی تحریریں انسان کو سندھ کے مختلف تاریخی مقامات کی سیر کراتی ہیں۔ ان کی کتاب کی ہر لائن میں سندھ کی تہذیب، ثقافت، اور فلسفے کی گہرائی نظر آتی ہے۔ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر نے سب کا شکریہ ادا کیا۔ رانا محبوب اختر نے کہاکہ مجھے سندھ کی سرزمین سے گہری محبت ہے اور اس کتاب کی تخلیق کا مقصد صرف سندھ کی تاریخ کو بیان کرنا نہیں بلکہ سندھ کی عوام کی ثقافتی وراثت کو محفوظ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کی موجودہ حالت دیکھ کرایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو شاید دنیا ایک اور موہن جو دڑو دیکھے گی۔