سن وے یونیورسٹی کے پروفیسر نوید خان کو سائنس اکیڈمی گولڈ میڈل مل گیا

– لال بیگ کے طاقتور دفاعی نظام پر اعزاز یافتہ حیاتی سائنس تحقیق اب سن وے یونیورسٹی میں –

بندر سن وے، ملائیشیا، 13 اپریل 2016ء/پی آرنیوزوائر/– حیاتیاتی سائنس میں اپنے شاندار تحقیقاتی کام پر سن وے یونیورسٹی کے پروفیسر نوید خان کو نومبر 2015ء میں پاکستان اکیڈمی آف سائنسز (پاس) گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ سادہ لیکن حیران کن، لال بیگوں پر ان کی تحقیق کا خلاصہ یوں کیا جا سکتا ہے۔ “جیسا کہ لال بیگ انسانوں کے لیے غلیظ ترین مقامات پر رہتے ہیں، یہ بات معقول لگتی ہے کہ بڑے جراثيم کے خلاف وہ انتہائی طاقتور دفاعی نظام رکھتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ہم نئے جراثیم کش صابنوں کے ذریعے خود کو مختلف بیماریوں کے حملوں سے بچا رہے ہیں، لال بیگوں جیسی مخلوق آلودہ ترین ماحول میں پنپ رہی ہے۔”

Professor Naveed Khan, Head of Biological Sciences, Sunway University who made a hero out of cockroaches.

http://photos.prnasia.com/prnvar/20160405/8521602182

پروفیسر خان کی تحقیق نے لال بیگوں کے دماغ میں متعدد نئی اینٹی بایوٹکس یعنی ضد نامیات کو پایا۔ انہوں نے پایا کہ لال بیگ کا مرکزی اعصابی نظام ایسی زبردست خصوصیات کی حامل ضد نامیات پیدا کرتا ہے جو انسانوں کے لیے مہلک جراثیم کو مار یتی ہیں جیسا کہ میتھیسلین-ریزسٹنٹ اسٹیفی لوکوکس اوریئس (ایم آر ایس اے) او نیوروپیتھوجینک ای کولی وہ بھی انسانی خلیات کو نقصان پہنچائے بغیر۔

پروفیسر خان متعدی امراض کا موثر جواب ڈھونڈنے کی خواہش رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ “لال بیگ ایسا جانور ہے جس سے سب سے زیادہ نفرت کی جاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کوئی 300 ملین سالوں سے موجود ہیں، بدترین حالات اور زبردست تابکاری میں بھی زندہ رہے، اور غلیظ ترین مقامات میں رہتے اور پنپتے ہیں۔ ان حقائق کو بنیاد بنا کر ہم ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ ان کے پاس طاقتور دفاعی نظام ہے۔”

پروفیسر خان مانتے ہیں کہ ان کی تحقیق متعدی امراض کے خطروں اور بڑے جراثیم کے ظہور کے مرحلے پر لاکھوں انسانوں کی جانیں بچا سکتی ہے۔ ان کی تحقیق نے ذرائع ابلاغ کی بڑے پیمانے پر توجہ حاصل کی اور “Naveed Khan and Cockroach” لکھ کر گوگل پر تلاش کریں تو 50,000 سے زیادہ ویب صفحات کا نتیجہ آتا ہے۔

سن وے میں شامل ہونے کے بعد ان کی ٹیم اس سے بھی زیادہ خطرناک جانوروں پر کام کو پھیلا چکی ہے، جیسا کہ مگرمچھ اور گھڑیال۔ وہ زور دیتے ہیں کہ بہت پرانے مسائل یا ابھرتے ہوئے مسائل کے نئے جوابات کو بنیادی چیزوں پر غور کرنے سے ملیں گے۔ پروفیسر خان نے بتایا کہ کس طرح سن وے یونیورسٹی طلبا میں مسائل حل کرنے کی سمجھ بڑھا رہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ طلبا کی تحقیقی حساسیت مضبوط ہو جائے گی اور وہ اپنے پورے ڈگری پروگرام کے دوران تجربہ گاہ میں آتے رہیں گے۔ پروفیسر خان نے مزید کہا کہ “تحقیق کوئی ملازمت نہیں بلکہ ایک طرز زندگی ہے۔ ان مہارتوں کو اپنی روزمرہ زندگی میں شامل کریں۔ یہ قوم اور آپ کی صلاحیتوں میں اضافے کا کام کرے گی۔”

پروفیسر خان اپنے ساتھ 16 سال کی تحقیق اور تدریس کا تجربہ سن وے یونیورسٹی، ملائیشیا لائے۔ سن وے یونیورسٹی برطانیہ کی سرفہرست 10 جامعات میں سے ایک اور دنیا بھر میں سرفہرست 1 فیصد میں شمار ہونے والی لنکاسٹر یونیورسٹی کے ساتھ شراکت داری رکھتا ہے۔ سن وے یونیورسٹی کے کئی ڈگری پروگرام دونون جامعات کی اسناد رکھتے ہیں۔

کویک کویریلی سائمنڈز (کیو ایس) کی جانب سے تدریس، ملازمت کی قابلیت اور تنصیبات میں 5 ستارہ قرار دی گئی سن وے یونیورسٹی کے گریجویٹ طلبہ کی بہت مانگ ہے۔ اسٹوڈنٹ بیرومیٹر سروے انٹری ویو 2015ء میں جسے آئی-گریجویٹ نے کیا تھا سن وے ایجوکیشن گروپ مع سن وے یونیورسٹی مجموعی تدریسی تجربے اور ملازمت کی قابلیت کے لیے ایشیا میں نمبر 1 آئی تھی۔

مزید معلومات کے لیے ملاحظہ کیجیے www.sunway.edu.my

تصویر – http://photos.prnasia.com/prnh/20160405/8521602182

Latest from Blog